گوری میم صاحب
قسط
01
ہیلو دوستو کیسے ہو آپ؟ ۔۔۔۔۔۔میں ہوں آپ کا دوست شاہ جی ۔کافی عرصہ کے بعد حاضر ہو رہا ہوں ہر چند کہ میں نے آسمان سر پر نہیں اُٹھا رکھا ۔۔۔۔ لیکن پھر بھی روزی روٹی کے چکر نے مجھے گھن چکر بنا رکھا ہے بزرگ ٹھیک ہی کہہ گئے ہیں کہ ۔۔بندہ روٹی نئیں کھاندا ۔۔۔۔ روٹی بندہ کھا جاندی اے ۔۔اتنی تمہید باندھنے اور چول مارنے کا مقصد فقط اتنا ہے کہ اگر کسی وجہ سے قسط لیٹ ہو جائے تو براہِ کرم درگزر کیجیئے گا۔۔۔ مزید گزارش یہ ہے کہ اس کہانی کو بطور کہانی کے ہی پڑھا جائے تو آپ کی عین نوازش ہو گی۔۔ تو آیئے سیکس کھتا کو شروع کرتے ہیں ۔۔۔ میں دفتر میں حسبِ معمول ویلا بیٹھا ہوا تھا کہ اچانک میرے موبائیل کی گھنٹی بجی۔۔۔۔ دیکھا تو کو ئی انجانا سا نمبر تھا۔۔۔ خیر میں نے فون آن کیا اور کان سے لگا کر جیسے ہی ہیلو کہا۔۔۔۔ تو دوسری طرف سے ایک انجان سی آواز سنائی دی۔۔۔ ہیلو ! کیا تم شاہ بول رہے ہو؟۔۔۔ تو میں نے جواب دیتے ہوئے کہا کہ ۔۔۔تمہاری قسم بھائی ! میں شاہ ہی بول رہا ہوں۔۔۔تو اس پر وہ کہنے لگا کہ سنا ہے تم نے آنٹیاں چھوڑ ۔۔۔ کھُسروں کی بنڈ مارنی شروع کر دی ہے؟ اس کی بات سن کر مجھے تھوڑا تعجب تو ہوا لیکن میں نے اس بات کا اظہار کیئے بغیر ۔ ۔۔۔۔۔ ترنت ہی جواب دیتے ہوئے کہا۔۔۔۔۔۔ آپ نے بلکل درست سنا ہے جناب ۔۔۔ ۔۔۔ اس لیئے اگر آپ کی تشریف میں بھی خارش ہو رہی ہے ۔۔۔تو ڈیٹول سے بنڈ دھو کر آ جاؤ۔۔۔میری طرف سے اتنی بات کہنے کی دیر تھی کہ اچانک دوسری طرف سے ایک فلک شگاف قہقہہ کی آواز سنائی دی۔۔۔۔۔ وہ اجنبی کہہ رہا تھا ۔۔۔اوئے بہن چود ا۔۔ ساری دنیا بدل گئی مگر ۔۔تو ابھی تک نہیں بدلا۔۔۔۔ اس پر میں نے جواب دیتے ہوئے کہا ۔۔۔ بھائی مرد کی ایک زبان ہوتی ہے۔میری اس بات پر اس نے ایک اور فرمائیشی قہقہہ لگایا ۔۔۔اور پھر کہنے لگا۔۔۔۔۔۔۔مجھے پہچانا؟۔۔۔ تو میں نے کہا ابھی آپ نے خود ہی ۔۔۔۔۔میں نے ابھی اتنا ہی کہا تھا کہ دوسری 03035260224 طرف سے وہ چلا کر بولا۔ ۔۔۔۔۔ بس بس ۔۔ اب اس آگے کچھ نہیں کہنا ۔۔۔ پھر مجھے گالی دیتے ہوئے بولا۔۔۔اوئے گانڈو !! میں عدیل بول رہا ہوں ۔۔۔اس کی بات سن کر میں اپنے ذہن پر تھوڑا زور دیا ۔۔ لیکن جب میری میموری میں عدیل نام کا کوئی شخص نہیں آیا تو میں اس سے بولا۔۔۔۔ سوری !!۔۔کون عدیل ؟ تو اس پر وہ بڑے رسان سے کہنے لگا۔۔۔۔عدیل جو تمہارے ساتھ اسلامیہ سکول میں پڑھا کرتا تھا۔اس کے منہ سے عدیل کا نام سن کر میں نے ایک بار پھر اپنی یاداشت پر زور دیا۔۔۔۔ لیکن میرے زہن میں عدیل نام کا کوئی شخص نہ آیا۔۔اس لیئے ایک بار پھر میں نے اس سے کہا۔۔۔۔ کون عدیل یار؟؟ تو اس بار وہ تھوڑا جھلا کر بولا۔۔۔ اوئے کنجرا ۔۔۔ میں بول رہا ہوں عدیل۔۔۔۔۔پھر تھوڑا سا ہچکچکاتے ہوئے بولا۔۔ ۔۔وہی یار ۔۔عدیلہ ۔۔شیمپو ۔۔۔۔ جیسے ہی اس نے اپنا تعارف عدیلہ شیمپو کے نام سے کرایا۔۔۔۔ تو میرے ذہن میں ایک دم سے چھناکا سا ہوا ۔۔۔اور مجھے وہ یاد آ گیا ۔ عدیل ہمارا کلاس فیلو تھا جو کہ میٹرک کے فوراً بعد کسی طرح امریکہ چلا گیا تھا اور پھر کافی عرصہ اس نے کوئی خیر خبر ہی نہیں دی اسی لیئے میرے ذہن سے اس کا نام محو ہو گیا تھا۔۔۔۔۔ اور دوسری بات یہ ہے کہ۔۔ عدیل کے ساتھ میری دوستی اتنی گہری بھی نہ
تھی کہ میں اسے یاد رکھتا ہاں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کلاس فیلو ۔۔۔۔۔۔اور دوستوں کا سیم گروپ ہونے کی وجہ سے اس کے ساتھ بہت بے تکلفی تھی ۔
نام تو اس کا عدیل تھا لیکن دوستوں کے حلقے میں ۔۔۔۔وہ عدیلہ شیمپو کے نام سے مشہور تھا اور اس کی مشہوری کی وجہ یہ تھی کہ سارے دوستوں میں یہ واحد لڑکا تھا جو کہ نہ صرف لن پر لگا کر مُٹھ مارتا تھا بلکہ ہم سب کو بھی اس بات کی زبردست تلقین کیا کرتا تھا کہ شیمپو لگا کر مُٹھ مارا کریں۔۔ کیونکہ اس طرح کرنے سے مزہ بھی زیادہ آتا ہے ۔۔۔اور جھاگ بھی اچھی بنتی ہے۔۔۔اور یہ تلقین اس نے اس قدر زیادہ کی تھی کہ تنگ آ کر ہم نے اس کا نام ہی عدیلہ شیمپو رکھ چھوڑا تھا ۔۔۔چنانچہ عدیل کو پہچانتے ہی میں 03035260224 خوشی سے چیختے ہوئے بولا۔۔۔۔اوئے گانڈو! توُ امریکہ سے کب آیا؟ ۔۔اور پھر اگلے ہی سانس میں اس سے کہنے لگا۔۔ ہور سُنا ۔۔۔وہاں کسی گوری میم کی چاٹی ؟۔۔۔یا پھر وہاں بھی شیمپو کے ساتھ مُٹھ مارتے رہے ہو؟۔ ۔۔۔۔ میری بات سن کر وہ بڑے فخریہ لہجے میں کہنے لگا ۔۔۔۔ تُو چاٹنے کی بات کر رہا ہے ۔۔۔تیرے بھائی نے تو گوریوں کو جی بھر کے چوپے بھی لگوائے ہیں ۔۔۔ دوستو ۔۔۔جیسا کہ آپ کو معلوم ہے کہ مجھے چوپا لگوانے کا بہت شوق ہے ۔۔۔ چوپا اور وہ بھی گوری میم کا۔۔۔۔ چنانچہ اس کے منہ سے گوریوں کے چوپوں کا سن کر ۔۔۔ ناجانے کیوں میرے دل میں حسرت کی ایک طویل لہر سی دوڑ گئی۔۔۔۔اور میں خواہ مخواہ جل کر کباب ہو گیا۔۔۔۔۔ اور پھر اسی حسرت ذدہ لہجے میں اس سے بولا ۔۔۔ کتنی گوریوں کو چوپے لگوائے ہیں؟ تو وہ قہقہہ لگاتے ہوئے کہنے لگا ۔بے شمار ۔۔۔پھر تھوڑا وقفہ دے کر بولا۔۔۔ تجھے سب بتا دوں گا مسڑ شاہ سٹوری ( جس طرح دوستوں نے شیمپو سے مُٹھ مارنے کی وجہ سے عدیل کا نام " عدیلہ شیمپو " رکھا تھا ٹھیک اسی طرح دوستوں کے حلقے میں مجھے بھی شاہ سٹوری کے نام سے جانا جاتا تھا اس کی ایک وجہ تو یہ تھی کہ میں ہمیشہ اپنے ذہن میں کوئی سیکس سٹوری بنا کر مُٹھ مارا کرتا تھا اور دوسری وجہ یہ تھی کہ میں ہر دوست سے اس کی سیکس سٹوری نہ صرف یہ کہ بڑی تفصیل کے ساتھ سنا کرتا تھا بلکہ اس سے کرید کرید کر مختلف سوالات بھی پوچھا کرتا تھا ان کی سیکس سٹویز میں اتنا زیادہ انٹرسٹ لینے کی وجہ سے دوستوں کے حلقے میں میرا نام ہی شاہ سٹوری پڑ گیا تھا۔۔۔ (اور سچی بات تو یہ ہے دوستو کہ اس دور کی دوستوں کے منہ سے سنی ہوئی وہ گرما گرم کہانیاں ۔۔۔ بعد میں سیکس سٹوریاں لکھتے ہوئے میرے بہت کام آئیں۔۔ ) ۔۔۔ ۔۔۔۔۔ہاں تو میں کہہ رہا تھا کہ جب میں نے عدیلے شیمپو سے یہ پوچھا کہ تفصیل سے بتا کہ اب تک کتنی گوریوں کو چوپے لگوا چکے ہو۔۔۔۔۔ تو آگے سے وہ ہنستے ہوئے کہنے لگا فکر نہ کر شاہ جی میں تجھے پوری تفصیل سے ساری سٹوریاں سناؤں گا۔۔۔پھر مجھ سے شکوہ کرتے ہوئے کہنے لگا ۔۔۔۔ یار مجھے پاکستان آئے ہوئے دس پندرہ دن سے زیادہ ہو گئے ہیں لیکن ابھی تک ایک بھی حرامی مجھ سے ملنے نہیں آیا۔۔۔ تو اس 03035260224 پر میں نے اسے جواب دیتے ہوئے کہا کہ سالے تم نے کون سا آنے کی اطلاع دی تھی۔۔۔ تو وہ جواب دیتے ہوئے بولا۔کہ۔ ۔۔۔۔۔ اطلاع کیسے دیتا ؟ میرے پاس تو کسی کا نمبر ہی نہیں تھا ۔اور اب بھی بڑی مشکل کے ساتھ مجھے قادرے سے تیرا نمبر ملا ہے۔ اس کے ساتھ ہی وہ مجھ سے کہنے لگا ۔۔۔ یہاں آ کر پرانے دوستوں سے ملنے کو بڑا دل کر رہا تھا ۔۔۔۔اس کی بات سن کر میں نے اس سے کہا کہ اچھا یہ بتاؤ ۔۔کہ تمہارا وہی گھر ہے نہ۔۔۔ تو وہ میری بات کاٹتے ہوئے جلدی سے بولا ۔۔ نہیں یار وہ تو ہمارا کرائے کا گھر تھا اب ہم نے اپنا گھر لے لیا ہے اور پھر اس نے مجھے اپنے گھر کا پتہ بتایا جو کہ اتفاق سے میرے آفس کے قریب ہی واقع تھا ۔۔ چنانچہ میں نے اس سے کہا کہ یار تمہارا گھر تو میرے آفس سے کچھ ہی فاصلے پر واقع ہے میں چھٹی کے بعد تم سے ملنے آؤں گا تو اس پر وہ بولا۔۔۔۔ چھٹی کے بعد کیوں؟۔۔۔ابھی آتے ہوئے تمہیں کیا موت پڑتی ہے؟ اس کے بعد وہ کہنے لگا ۔۔ایسا کرو کہ تم ابھی اور اسی وقت آ جاؤ آج دوپہر کا کھانا ہم اکھٹے ہی کھائیں گے۔۔۔اور اس کے ساتھ ہی میں تمہیں اپنی بیگم سے بھی ملواؤں گا ۔۔۔۔پھر معنی خیز لہجے میں کہنے لگا۔۔۔ امریکہ سے گوری لایا ہوں۔۔۔ گوری میم کا نام سن کر پتہ نہیں کیوں میرے جسم میں ایک سنسی سی دوڑ گئی اور میں بڑی حسرت کے ساتھ بولا۔۔۔ اس سے ملنے کا کیا فائدہ یار!! بھابھی تو انگریزی بولتی ہو گی اور تمہیں تو معلوم ہی ہے کہ اپنا ہاتھ شروع سے ہی انگریزی میں تنگ نہیں بلکہ۔۔۔بہت ہی تنگ ہے میری بات سن کر وہ کہنے لگا ۔۔ مجھے سب پتہ ہے یار۔۔ لیکن تو انگریزی کی فکر نہ کر ۔۔۔ کہ تیری بھابھی کو اردو بھی آتی ہے تو بس جلدی سے آنے والی بات کر ۔۔۔اور اتنی بات کرتے ہی اس نے فون رکھ دیا۔۔۔
عدیل نے تو فون بند کر دیا۔۔۔ لیکن اس کے منہ سے گوری میم کا نام سن کر پتہ نہیں کیوں میرے جسم ایک عجیب سا ہیجان برپا ہو گیا ۔اور میری آنکھوں کے سامنے بلیو مویز میں چوپے لگانے والی وہ ساری کی ساری گوریاں گھوم گئیں جن پر میں سچے دل سے عاشق تھا۔۔ فون ختم ہونے کے بعد میں اپنے ایک سنئیر لیکن بے تکلف کولیگ کے پاس چلا گیا۔۔ اور اسے ساری داستان سنائی ۔ میری بات سن کر وہ کولیگ جو کہ میری حرکات برائے سیکس سے بخوبی واقف تھا ۔۔پہلے تو بڑے غور سے میری طرف دیکھا پھر سنجیدہ لہجے میں بولا۔۔ تمہارے چہرے کی لالی اور آنکھوں کی چمک بتا رہی ہے کہ تم اپنے دوست کی بیوی (گوری میم ) کو بلیو موی والی گوریوں سے ملا رہے ہو پھر مجھ سے مخاطب ہو کر بولا ۔اگر ایسا ہے تو یاد رکھو تم خطا کھا رہے ہو اور وہ اس لیئے کہ ساری گوریاں ایسی نہیں ہوتیں اس کے بعد وہ کولیگ کافی دیر تک مجھے سمجھاتا رہا اور شکر ہے کہ اس کی یہ بات میرے موٹے دماغ میں آ گئی ورنہ میرے نزدیک تو ہر گوری میم چالو تھی جو کہ چوپا لگا کر پھدی مروانے میں ایک منٹ بھی نہیں لگاتی تھی چنانچہ اس کولیگ کی بات کو میں نے اپنے پلے سے باندھ لیا۔۔اور پھر اس کا شکریہ ادا کر کے اُٹھنے ہی لگا تھا کہ اچانک وہ مجھ سے کہنے لگے اچھا یہ بتاؤ کہ تم اس کی بیگم کو منہ دکھائی میں کیا گفٹ دے رہے ہو؟ تو میں حیران ہوتے ہوئے بولا گفٹ۔۔۔کیسا گفٹ ؟ تو وہ سمجھاتے ہوئے بولے۔۔۔ کہ دیکھو یار ہمارے ہاں رسم ہے کہ دلہن کو منہ دکھائی میں کچھ نہ کچھ دیا جاتا ہے چنانچہ اس کے بعد انہوں نے مجھے اس بارے ایک چھوٹا سا لیکچر دیا ۔۔ حُسنِ اتفاق سے اس سینئر کولیگ کا دیا ہوا یہ چھوٹا سا لیکچر بھی میرے موٹے دماغ میں بیٹھ گیا اور میں نے اس کولیگ کی ہدایت پر عمل کرتے ہوئے گوری بھابھی کے لیئے بازار سے ایک بہت اچھا سا برانڈڈ سوٹ خریدا اور اسے گفٹ پیک کروا کے ساتھ مٹھائی کا ایک ڈبہ لیا اور پھر عدیل کے بتائے ہوئے اڈریس پر پہنچ گیا۔
وہ ایک جدید طرز کا بنگلہ نما گھر تھا جس پر ابھی نیا نیا رنگ و روغن ہوا لگتا تھا۔۔ چنانچہ اس کے گھر کا باہر سے جائزہ لینے کے بعد میں نے گھنٹی بجائی تو اندر سے ایک فربہی مائل ادھیڑ عمر کی عورت نے دروازہ کھولا ۔ اور سر سے پاؤں تک میری طرف دیکھنے کے بعد کہنے لگی ۔ آپ کو کس سے ملنا ہے؟ تو اس پر میں نے جواب دیتے ہوئے کہا کہ جی عدیل گھر پر ہے ؟ میری بات سنتے ہی انہوں نے اپنے ہونٹوں پر ایک دلفریب سی مسکراہٹ سجائی اور بڑی خوش اخلاقی سے کہنے لگیں بیٹا! آپ یقیناً شاہ ہو تو آگے سے میں نے اثبات میں سر ہلا دیا۔ تب وہ بڑی شفقت سے مجھے راستے دیتے ہوئے بولیں۔ اندر آ جاؤ عدیل تمہارا ہی انتطار کر رہا ہے ۔ اور وہ مجھے ساتھ لیئے ڈرائینگ روم میں آ گئیں اور وہاں بٹھا کر کہنے لگیں۔۔ آپ بیٹھو میں عدیل کو بلاتی ہوں ۔۔ ان کے جانے کے تھوڑی ہی دیر بعد عدیل ڈرائینگ روم میں داخل ہوا۔۔۔اور مجھے دیکھتے ہی ایک فلک شگاف نعرہ مارا۔
No comments:
Post a Comment