گوری میم صاحب
قسط 02
اور پھر بڑی گرم جوشی کے ساتھ یہ کہتے ہوئے مجھ لپٹ گیا ۔۔کہ۔۔ اوئے شاہ !! تم میں زرا بھی تبدیلی نہیں آئی۔۔۔اور ابھی تک ویسے کے ویسے ہو۔۔ ۔مجھ سے ملنے کے بعد اس نے ایک نظر پیچھے مُڑ کر دیکھا ۔۔تو وہاں کوئی نہ تھا اس لیئے وہ قدرے اونچی آواز میں بولا ۔۔۔ کامان ڈارلنگ ۔ اس کی آواز سنتے ہی ڈرائینگ روم کے دروازے سے ایک مناسب جسم والی سرو قد بلونڈ گوری کمرے میں داخل ہوئی اس نے پتہ نہیں کس کی فرمائیش پر کالا سوٹ پہنا ہوا تھا جو کہ اس پر بہت جچ رہا تھا اور ستم بلائے ستم یہ کہ اس کی قمیض کا گلا بھی بہت کھلا تھا۔۔ اور کالے رنگ کی اس قمیض میں سے اس کی دودھیا سفید چھاتیاں صاف چھپتی بھی نہیں سامنے آتی بھی نہیں ۔۔۔ کا نظارہ پیش کر رہیں تھیں دوپٹے کے نام پر اس نے کپڑے کی ایک دھجی کو اپنے سینے کی بجائے کندھے پر رکھا ہوا تھا اس کے چلنے کا انداز بہت مست تھا زندگی میں فرسٹ ٹائم کسی گوری کو اپنی آنکھوں کے سامنے دیکھ کر میں فوت ہونے ہی والا تھا کہ کولیگ کی نصیحت یاد آ گئی۔۔۔۔ اور میں نے فوت ہونے کا پروگرم ملتوی کر دیا۔۔۔۔ تاہم پھر بھی اسے دیکھ کر میرا دل بڑے ذور سے دھڑکا ۔۔اور میں منہ کھولے یک ٹک اس کی طرف دیکھتا رہا ۔۔۔۔۔ اور اس سے پہلے کہ میں کولیگ کی نصیحت بھول کر۔۔۔۔دوبارہ اس پر ہزار جان سے فدا ہو جاتا۔۔۔۔ میں نے شرافت کا مظاہرہ کرتے ہوئے ۔۔۔۔ اپنی نگاہوں کا زاویہ تبدیل کیا۔۔۔اور میز پر رکھے گفٹس کو اُٹھایا ۔۔۔اور بڑے ادب کے ساتھ اس قیامت کے حوالے کرتے ہوئے بولا۔۔ ۔۔ ویل کم ٹو پاکستان بھابھی۔میرے ہاتھ میں گفٹس کو دیکھ کر اس نے ایک نظر عدیل کی طرف دیکھا ۔۔۔۔۔اور پھر غالباً وہاں سے گرین سگنل ملنے کے بعد اس نے گفٹس کو میرے ہاتھ سے لے کر میرا شکریہ کہتے ہوئے اس نے اپنا دایاں ہاتھ میری طرف بڑھا دیا۔۔ اس کا بڑھا ہوا ہاتھ دیکھ کر ایک لمحے کے لیئے میں جھجھک سا گیا ۔۔۔۔لیکن پھر کچھ توقف کے بعد میں نے بھی اپنے ہاتھ کو اس کی طرف بڑھا دیا۔۔۔۔۔ اور اس کے ساتھ ہی اپنے کولیگ کی ہدایت کے مطابق ( بڑی مشکل کے ساتھ) اپنی نظروں پر کنٹرول کرتے ہوئے ۔۔۔۔ اس کے ساتھ ہاتھ ملانے لگا۔ رسمی علیک سلیک کے بعد وہ قیامت گفٹس اُٹھائے واپس چلی گئی ۔۔۔اس کے جاتے ہی عدیل نے میری طرف دیکھا اور پھر کہنے لگا کہ کیسی لگی بھابھی؟ تو میں نے جواب دیتے ہوئے کہا کہ بڑی کیوٹ ہے اس کی کوئی دوسری بہن نہیں ہے؟البتہ اس کی ایک کز ن ہے جو کہ اس سے بھی زیادہ خوب صورت اور سیکسی ہے ۔۔۔۔ لیکن اس کے لیئے تمہیں اسٹیٹس (امریکہ) جانا پڑے گا ۔۔۔ اور پھر ہنسنے لگا ۔۔۔ عدیل کی بات سن کر میں بھی اس کی ہنسی میں شریک ہو گیا۔۔۔۔ اور پھر اس سے بولا یار یہ تو بتاؤ کہ تم نے بھابھی کا اسلامی نام کیا رکھا ہے؟ تو آگے سے وہ جواب دیتے ہوئے بولا۔۔۔ کہ شادی سے قبل اس کا نام ماریا جوزف تھا چونکہ ہمارے ہاں بھی ماریا نام چلتا ہے اس لیئے امی کے کہنے پر میں نے اس کا نام تبدیل نہیں کیا ۔۔۔۔ہاں تم اسے ماریا عدیل کہہ سکتے ہو۔اس کے بعد اس نے مجھے بیٹھنے کو کہا۔۔۔۔۔اور ہم ادھر ادھر کی باتیں کرنے لگے ۔باتیں کرتے ہوئے ابھی ہمیں کچھ دیر ہی گزری تھی کہ ایک بار پھر وہی خاتون جو کہ عدیل کی والدہ تھی ڈرائینگ روم میں داخل ہوئیں اور ہمیں مخاطب کرتے ہوئے کہنے لگیں۔۔۔ لنچ تیار ہے آ جاؤ۔۔۔ کھانے کی میز پر ایک طرف میں اکیلا ۔۔۔ جبکہ میرے سامنے والی کرسیوں پر عدیل اور اس کی بیگم اور ان کے ساتھ عدیل کی والدہ بیٹھی تھیں۔ کھانے کھاتے ہوئے بھی ہم سب ادھر ادھر کی باتیں کرتے رہے تھے لیکن پتہ نہیں کیوں ماریا میم مطلب ہے ۔۔۔مسز عدیل 03035260224 نے ایک لفظ بھی نہیں بولا۔۔۔ لیکن وہ ہماری خاص کر میری اور عدیل کی گفتگو بڑی دل چسپی کے ساتھ سن رہی تھی ۔ اسی دوران عدیل کی امی نے میری طرف دیکھا ۔۔۔ اور پھر کہنے لگی۔ بیٹا جی! آپ کام کیا کرتے ہو؟ تو جب میں نے انہیں اپنے ڈیپارٹمنٹ کا نام بتایا تو ۔۔۔۔۔ میرے محکمے کا نام سن کر وہ ایک دم سے ٹھٹھک گئی۔۔۔ اور پھر فوراً ہی اگلا سوال داغتے ہوئے بولیں کہ آپ وہاں کس پوسٹ پر کام کرتے ہو؟ اور جب میں نے انہیں اپنے عہدے کے بارے میں بتایا۔۔ تو آنٹی کے ساتھ ساتھ عدیل بھی چونک کر بولا۔اوئے تیری خیر!!۔۔۔ تیری جاب تو بڑی زبردست ہے یار ۔۔۔۔۔اس کے بعد وہ میری طرف دیکھتے ہوئے بڑے ہی پُر اسرار لہجے میں کہنے لگا۔۔ ۔۔۔ تیرا تو سر بھی کڑاھی میں ہو گا دوست۔ اس کی بات سن کر میں نے ایک پھیکی سی مسکراہٹ کے ساتھ اس کی طرف دیکھا اور بولا ۔۔ ایسی کوئی بات نہیں ہے یار۔۔۔۔۔۔یہاں پر میں عدیل اور اس کی فیملی کے بارے میں تھوڑی سی وضاحت کر دوں کہ یہ لوگ ایک دم ظاہر دار مطلب یہ کہ سخت قسم کے دنیا دار اور کھلے ماحول کے لوگ تھے اور خاص کر اس کی امی کے بارے میں مشہور تھا کہ وہ محلے میں لوگوں کی حثیت دیکھ کر دوستی لگایا کرتی تھیں ۔۔ یہی حال عدیل کا بھی تھا وہ بھی ہمیشہ کلاس کے کھاتے پیتے اور امیر قسم کے لڑکوں کے ساتھ دوستی لگایا کرتا تھا۔۔۔۔ اسی لیئے تو ہماری کمزور مالی حالت کے پیشِ نظر اس نے کبھی بھی میرے ساتھ گہری دوستی رکھنے کی کوئی کوشش نہ کی تھی۔ ہاں دوستوں کا سیم گروپ ہونے کی وجہ سے اس کی میرے ساتھ بس اچھی ہیلو ہائے تھی اس کے علاوہ اس نے کبھی بھی مجھے کوئی خاص لفٹ نہ کرائی تھی اور اس کی انہی حرکتوں کے پیشِ نظر ۔۔۔۔ میں نے خود بھی اس کے قریب ہونے کی کبھی کوشش نہ کی تھی۔۔۔۔ ہاں تو دوستو!!!۔۔۔ میں کہہ رہا تھا کہ جیسے ہی میں نے ان کو اپنے محکمے اور ۔۔۔ عہدے کے بارے میں بتلایا تو میری بات سنتے ہی ماں بیٹے کی آنکھوں میں واضع طور پر ایک چمک سی آ گئی تھی اور پھر اس کے بعد میں نے صاف طور پر محسوس کیا کہ میرے سٹیٹس کو جان کر ۔۔۔ ان کے رویے میں پہلے سے بھی زیادہ گرمجوشی آ گئی تھی …… ادھر عدیل کی والدہ کافی دیر تک مجھے ستائیشی نظروں سے دیکھتی رہیں۔۔۔ پھر اچانک ہی کہنے لگی۔۔.. ۔ بیٹا آج تو تم اکیلے آئے ہو ۔۔۔لیکن اگلی دفعہ جب بھی ہمارے گھر آؤ۔۔۔۔تو اپنی بیگم کو ضرور ساتھ لانا ۔۔۔۔آنٹی کی بات سن کر میں نے ایک ٹھنڈی سانس بھری اور کہنے لگا ۔۔۔آپ کا حکم سر آنکھوں پر آنٹی ۔۔۔۔۔ لیکن۔۔۔ بیگم ہو گی تو ساتھ لاؤں گا نا ۔۔ میری بات سن کر وہ ایک دفعہ پھر چونک پڑیں ۔۔۔ اور میری طرف دیکھتے ہوئے کہنے لگی۔۔ اچھا تو یہ بتاؤ۔۔۔ کہ کہیں منگنی وغیرہ بھی ہوئی ہے؟ تو ان کی بات سن کر ۔۔۔۔ ایک دفعہ پھر میں نے ٹھنڈی سانس بھری اور ان سے بولا۔ ۔ نہیں آنٹی جی میری منگنی تو کیا ۔۔۔ اس بارے میں کہیں بات چیت بھی نہیں چل رہی ۔ میری بات سن کر وہ حیرت بھرے لہجے میں کہنے لگیں۔۔۔ کمال ہے بیٹا !!!!۔۔۔ تم اتنی اچھی پوسٹ پر فائز ہو اور ۔۔۔کہیں رشتے وغیرہ کی کوئی بات چیت بھی نہیں چل رہی ؟؟؟؟؟؟ ان کی بات سن کر میں نے ایسے ہی کہہ دیا کہ ۔۔ چھوڑیں آنٹی میرے ہاتھ میں شادی والی لکیر ہی نہیں ہے ۔ پھر اس کے بعد اسی ٹاپک پر ہماری گفتگو ہوتی رہی ۔۔ کھانا کھانے کے کچھ دیر بعد میں نے ان سے اجازت لی اور گھر چلا آیا۔
یہ اس سے اگلے دن بعد کی بات ہے کہ میں اپنے کمرے میں بیٹھا چائے پی رہا تھا کہ آفس کے مین گیٹ سے گارڈ نے انٹر کام کیا کہ سر کوئی عدیل نام کا بندہ آپ سے ملنا چاہ رہا ہے ۔۔۔ اسے اندر بھیج دوں؟ ۔۔۔ یا اسے گولی دینی ہے؟ عدیل کا نام سن کر میں نے اسے کہا کہ نہیں یار یہ گولی والا بندہ نہیں ہے۔۔۔۔اس لیئے اسے میرے کمرے میں لے آؤ ۔ کچھ دیر بعد گارڈ کے ساتھ عدیل کمرے میں داخل ہوا اور رسمی علیک سلیک کے بعد ۔۔۔ مجھ سے گلہ کرتے ہوئے بولا کہ تم کہاں مر گئے تھے ۔۔۔ ماما تمہارا بہت پوچھ رہیں ہیں ۔۔۔پھر کہنے لگا کہ۔۔ آج تم لنچ پر بھی نہیں آئے۔۔۔ تو میں نے اس کو جواب دیتے ہوئے کہا کہ بس یار آفس میں کچھ ایسے کام پیش آ گئے تھے کہ میں تمہاری طرف چکر نہ لگا سکا۔۔۔۔ تو اس پر وہ مجھ سے کہنے لگا کہ ابھی تو فری ہو نا اس لیئے میرے ساتھ چلو کہ ۔۔۔ تم کو ماما بلا رہی ہیں۔۔۔ ماما کا نام سن کر میں دل ہی دل ۔۔ میں ٹھٹھکا۔۔۔۔ لیکن اس پر کچھ ظاہر نہیں ہونے دیا۔۔۔۔۔ اور اس کے ساتھ اگلے دن آنے کا وعدہ کر لیا۔ لیکن اس کے باوجود بھی عدیل نے میری جان نہیں چھوڑی اور ۔۔ کہنے لگا ایسا کرو گھر کل آ جانا۔۔۔۔ لیکن ابھی میرے ساتھ باہر چلو یار ۔۔کہیں باہر چل کر گپ شپ کرتے ہیں کہ گھر میں پڑے پڑے میں کافی بور ہو گیا ہوں۔۔۔ اس کی بات سن کر میں نے اس سے کہا چل پھر ۔۔۔۔۔۔میں تجھے کسی اچھے ریسٹورنٹ میں کھانا کھلاتا ہوں تو آگے سے وہ جواب دیتے ہوئے بولا کہ سوری یار میں ابھی ابھی لنچ کر کے تمہاری طرف آ رہا ہوں ۔۔۔ ہاں تیرے ساتھ چائے پی لوں گا۔۔ چنانچہ میں عدیل کو ساتھ لے کر شہر کے ایک مشہور ریسٹورنٹ میں آ گیا اور چائے کے ساتھ دیگر لوازمات کا آڈر دیتے میں نے اس سے کہا سنا یار امریکہ کیسا لگا؟ اسی دوران اچانک ہی میرے ذہن میں ایک خیال آیا ۔۔۔۔۔اور میں اس کی طرف دیکھتے ہوئے بڑے اشتیاق سے بولا۔۔۔۔ امریکہ کی بنڈ مار ۔۔ تو مجھے یہ بتا کہ وہاں جا کر سب سے پہلے کس گوری کی پھدی ماری تھی اور کیسے؟؟؟۔ میری بات سن کر وہ ہنستے ہوئے بولا۔۔۔۔۔ آ گیا نا اپنی اوقات پر۔۔ تو آگے سے میں بھی دانت نکالتے ہوئے بولا ۔۔۔ کہ تم اچھی طرح سے جانتے ہو کہ مجھے سیکس سٹوریز سننے کا کتنا شوق ہے اس لیئے اب زیادہ نخرہ نہ کر اور مجھے تفصیل سے بتا کہ امریکہ جا کر سب سے پہلے کس گوری کو کیوں اور کیسے چودا ۔۔۔۔ اور ساتھ نمک مرچ لگا کر یہ بھی بتا کہ تم نے اسے چودنے کے لیئے راضی کیسے کیا تھا ؟ میری بات سن کر عدیل ایک دم سیریس ہو تے ہوئے بولا۔۔ تمہاری اطلاع کے لیئے عرض ہے کہ امریکہ جا کر میں نے سب سے پہلے کسی گوری کی نہیں بلکہ ایک دیسی کی چوت ماری تھی۔ عدیل کی بات سن کر میں آنکھیں نکالتے ہوئے اس سے بولا ۔۔ ایسے نہیں بھائی صاحب پوری تفصیل بتاؤ ۔۔پھر اپنے لہجے پر زور دیتے ہوئے بولا۔۔ایک ایک چیز کی تفصیل معہ نمک مرچ۔۔۔۔۔ میری بات سن کر اس
نے بڑی عجیب سی نظروں سے میری طرف دیکھا ۔۔۔ اس کی آنکھوں میں واضع طور پر کشمکش کے آثار نظر آ رہے تھے۔ لیکن پھر چند سیکنڈز سوچنے کے بعد اچانک ہی وہ کہنے لگا۔۔گو کہ میری سٹوری میں ایک آدھ پردہ نشین کا نام بھی آئے گا ۔ ۔لیکن تو بھی کیا یاد کرے گا سالے ۔۔۔ آج میں تمہیں امریکہ میں پہلی پھدی مارنے اور اس سے جڑی ایک ایک بات تفصیل بتا ؤں گا اور میری جان یہ تفصیل اتنی گرم ہو گی کہ آج کی رات تمہیں سٹوری بنا کر مُٹھ مارنے کی ضرورت نہیں پڑے گی۔۔۔۔ اس کے ساتھ ہی اس نے کرسی میری طرف کھسکائی اور پھر وہ میری آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر کہنے لگا۔شاہ جی شاید تمہیں معلوم نہیں کہ میرے سگے ماموں امریکہ میں ہوتے ہیں اور انہی کی سپانسر کی وجہ سے میں امریکہ گیا تھا۔۔۔ اس کے بعد وہ کہنے لگا کہ۔۔۔ یہ ان دونوں کی بات ہے کہ جب میٹرک کے پیپرز کے لیئے ڈیٹ شیٹ ایشو ہو گئی تھی اور ہمارے سارے دوست پیپرز کی تیاری کر رہے تھے مجھے آج بھی اچھی طرح سے یاد ہے کہ ڈیٹ شیٹ کے مطابق پہلا پرچہ انگریزی کا تھا لیکن میں انگریزی کا پرچہ دینے کی بجائے ۔۔۔۔ انگریزی بولنے والوں کے دیس امریکہ جا رہا تھا ان دونوں چونکہ سارے دوست انگریزی کے پرچے کی تیاریاں کر رہے تھے اس لیئے پاکستان سے جاتے ہوئے میں اپنے دوستوں سے الوداعی ملاقات بھی نہیں کر سکا۔۔۔ اس کے بعد وہ کہنے لگا کہ جس دن تم لوگ کمرہ ء امتحان میں بیٹھ کر ایک دوسرے سے بوُٹی مانگ رہے تھے عین اس وقت میں ۔۔۔۔آنکھوں میں گوریوں کے خواب سجائے جہاز میں بیٹھا ۔۔امریکہ کے لیئے روانہ ہو رہا تھا ۔۔۔جے ایف کے ائیرپورٹ پر مجھے لینے کے لیئے ماموں اور ممانی دونوں آئے ہوئے تھے۔۔ یہ لوگ نیو یارک کے مشہور انڈو پاک ایریا کوئین میں رہتے تھے جو کہ جے ایف کے ائیر پورٹ سے بیس پچیس منٹ کی ڈرائیو پر واقع تھا ان کی رہائیش کرونا پارک سے کچھ فاصلے پر واقعہ تھی یہاں پر میں تم سے اپنے ماموں اور ممانی کا تعارف کرو ا دوں میرے ماموں کا نام حماد سلطان اور ممانی کا نام ندرت سلطان تھا جس وقت کی میں بات کر رہا ہوں اس وقت ممانی کی عمر 30، 32 جبکہ میرے ماموں 40۔42 کے ہوں گے اور وہ ابھی تک بے اولاد تھے۔۔۔
امریکہ پہنچ کر ماموں اور ممانی نے میری بڑی آؤ بھگت کی ۔ اور خاص کر ممانی نے مجھے نیو یارک سٹی میں کافی گھمایا پھرایا اس دوران میں نے ان سے کہا بھی کہ مجھے کہیں کام پر لگوا دیں لیکن وہ جواب دیتیں کہ تمہاری ماں کیا کہے گی کہ منڈے کو آتے ساتھ ہی کام پر لگا دیا۔۔۔ اس لیئے تھوڑا گھوم پھر لو تھوڑا ریسٹ کر لو کہ اس کے بعد تم نے ساری عمر کام ہی کرنا ہے ۔ ہاں تو میں کہہ رہا تھا کہ ماموں جہاں رہتے تھے وہ ایک چھوٹا سا دو منزلہ مکان تھا۔۔ ان کے چھوٹے سے اپارٹمنٹ میں دو ہی کمرے تھے ایک میں ماموں لوگ سوتے تھے ۔۔۔۔ جبکہ دوسرا کمرہ انہوں نے مجھے دے دیا تھا۔ ماموں اور ممانی دونوں ہی الگ الگ سٹورز میں ملازمت کرتے تھے لیکن یہ سٹور ایک ہی مالک کا 03035260224 تھا جس کا نام جے پرکاش نارائن تھا اور وہ انڈیا (دہلی) کا رہنے والا ایک پنجابی ہندو تھا اور مزے کی بات یہ ہے کہ میرے ماموں لوگ جس اپارٹمنٹ میں بطور کرایہ دار رہتے تھے وہ بھی اسی ہندو مالک کی مالکیت تھا نچلے والے پورشن میں وہ خود جبکہ اوپر والے پورشن میں ماموں لوگ رہتے تھے ۔ اور اس گھر کی بناوٹ کچھ ایسی تھی کہ اس کا مین گیٹ ایک ہی تھا جبکہ اس کی اوپر والی منزل کی سیڑھیاں صحن سے ہو کر گزرتی تھیں۔۔ ۔۔ اتنی بات کرنے کے بعد عدیل ایک لمحے کے لیئے جھجھکا لیکن اگلے ہی لمحے اسی روانی کے ساتھ کہنے لگا کہ شاہ جی جیسا کہ تمہیں معلوم ہے کہ شروع سے ہی ہمارے گھر کا ماحول عام گھروں کی نسبت تھوڑا کھلا تھا لیکن جہاں تک ممانی لوگوں کا تعلق ہے تو یقین کرو خود ممانی اور ان کی فیملی کے باقی لوگ اچھے خاصے مذہبی واقعہ ہوئے تھے۔۔۔ مجھے اچھی طرح سے یاد ہے کہ اس زمانے میں ممانی اور ان کی باقی بہنیں وغیرہ پردہ کیا کرتی تھیں اور برقعہ کے بغیر وہ کہیں بھی آتی جاتی نہ تھیں۔۔۔ لیکن جب میں امریکہ پہنچا تو ۔۔۔۔ خاص کر ممانی کے چال چلن دیکھ کر میں تو حیران ہی رہ گیا۔۔کہاں کہ وہ پردے کے بغیر گھر سے باہر ایک قدم بھی نہ رکھتی تھیں۔۔۔۔ اور کہاں یہ کہ۔۔۔پردہ تو درکنار ۔۔ جس قسم کے لباس میں ۔۔۔۔۔۔ میں نے ان کو دیکھا تھا ۔۔ یقین کرو میں حیران بلکہ کافی حد تک پریشان ہو گیا تھا۔۔۔کیونکہ وہ بہت بولڈ ۔۔۔ بلکہ ان کی فیملی کے حساب سے اچھا خاصہ قابلِ اعتراض تھا ۔پھر کہنے لگا کہ امریکہ کی کھلی ڈھلی سوسائٹی نے ممانی کو پوری طرح اپنے رنگ میں رنگ لیا تھا ۔۔۔ یہ امریکہ کی آذاد فضاؤں کا اثر تھا یا کیا تھا کہ وہ گھر میں ہمیشہ ہی ایک ڈھیلی ڈھالی (بٹنوں والی ) شرٹ اور نیچے ٹائیٹس ( تنگ پجامی) پہنا کرتی تھی اور یہ ٹائیٹس اتنی زیادہ ٹائیٹ ہوا کرتی تھی کہ جس کی وجہ سے ان کے نچلے جسم کے ایک ایک عضو کا ماپ کیا جا سکتا تھا۔ اس کے علاوہ عام حالات میں بھی وہ کافی بولڈ قسم کا لباس پہنتی تھیں جو کہ شروع شروع میں تو مجھے بڑا عجیب۔۔۔ بلکہ شر انگیز لگا لیکن پھر آہستہ آہستہ ماموں کی طرح میں بھی اس کا عادی ہو گیا تھا۔
اتنی بات کرنے کے بعد عدیل نے اپنی کرسی کو تھوڑا مزید آگے کی طرف کھسکایا اور میری طرف دیکھتے ہوئے کہنے لگا کہ ایک رات کی بات ہے کہ میں اپنے کمرے میں مست سو رہا تھا کہ اچانک کسی وجہ سے میری آنکھ کھل گئی۔۔ کچھ دیر تک تو میں یونہی پلنگ پر لیٹا۔۔۔ کروٹیں بدلتا رہا پھر اچانک میرے کانوں میں سیکس بھری چیخ سنائی دی۔۔۔ بلیو مویز دیکھ دیکھ کر اتنا تو میں جان ہی گیا تھا کہ لڑکیوں کے منہ سے اس قسم کی چیخیں سیکس کے دوران ہی نکلتی ہیں اس لیئے جب ویسی ہی چیخ کی آ واز مجھے دوبارہ سنائی دی تو میں یہ سوچ کر لیٹا رہا کہ ۔۔۔۔۔ماموں اور ممانی سیکس انجوائے کر رہے ہوں گے۔۔۔ لیکن پھر کچھ دیر بعد۔۔۔۔ پھر ان لزت بھری چیخوں میں تھوڑی شدت آ گئی ۔ اور ان سیکسی آوازوں کو سنتے ہوئے اچانک ہی مجھے یاد آ گیا کہ ماموں کی تو آج نائیٹ ہے یہ خیال آتے ہی میں نے اپنے بیڈ سے چھلانگ لگائی اور دبے پاؤں چلتا ہوا کمرے سے باہر نکل گیا ۔۔۔اور پھر کان لگا کر ندرت مامی کے کمرے کی طرف دیکھنے لگا۔ عین اسی وقت جب میرے کان ان کے کمرے کی طرف لگے ہوئے تھے۔۔۔۔اچانک مجھے ندرت مامی کی ایک زوردار مگر لزت بھری چیخ سنائی دی۔۔۔۔ میں نے غور کیا تو یہ آواز گیلری کی طرف سے آ رہی تھی۔۔۔چنانچہ میں بھاگ کر گیلری کی طرف گیا ۔۔۔ اور گیلری سے نیچے کی سمت دیکھنے لگا کہ جس طرف سے ممانی کی مست سسکیوں کی آواز یں سنائی دے رہی تھیں۔۔
No comments:
Post a Comment